Lailahailallah
trp
e-Books ( Urdu )
Lo Ujale Laut Aaye

نکتہ : دوئی عقل کی ایجاد ہے یعنی وہم و گمان ہے ۔ عقل گرمی کو الگ ٹھنڈی کو الگ دیکھتی و جانتی ہے ۔ یہ دونوں کو ایک میں دیکھ نہیں سکتی یا یوں کہو برداشت نہیں کرسکتی جس کی وجہ سے دوئی کا جنم ہوتا ہے ۔ حالانکہ دونوں ایک ہی ہیں ۔ اگر ہم دنیا سے گرمی کا نام و نشان مٹا دیں تو ٹھنڈی خود بخود ختم ہوجائے گی ، مگر عقل یہ سمجھتی ہے اگر گرمی کو مٹا دیں تو ٹھنڈی رہ جائے گی مگر ایسا ہر گز ممکن نہیں ۔ جب تک نور نہیں تھا تب تک اندھیرا نہیں تھا ۔ چیز ایک ہی ہے مگر عقل اس کو دو حصوں میں دیکھتی ہے ۔ عقل کسی بھی چیز کو پورا نہیں دیکھ سکتی ۔ عقل بُرے کو الگ اور اچھے کو الگ کردیتی ہے ۔ جبکہ وجود دوئی سے باہر ہوتا ہے ۔ مثلاً وجود کے اندر بہنے والی قوّت کی رو ایک ہوتی ہے ۔ اگر میں کہوں کہ آپ کے پیر کی انگلی کو توڑ دیا جائے تو کیا کچھ آنکھ کو فرق ہوگا ؟ تم کہو گے ہرگز نہیں ہوگا ، کیونکہ آنکھ الگ ہے اور پیر کی انگلی الگ ہے ۔ مگر باہر سے کچھ فرق محسوس نہ ہو پر ۔ اندر سے آنکھ کو بہت فرق ہوگا ۔ کیونکہ اندر سے بہنے والی قوّتِ رو ایک ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ تمام وجود خلیے سے بنا ہے ، چاہے آپ کی آنکھ ہو یا آپ کے پیر کی انگلی ۔ ان خلیات نے ہی حسب ضرورت خود بخود ترقی کرکے ان صفات کے موصوف بنے ۔ ماں کے پیٹ میں ایک ہی خلیہ ہوتا ہے ۔ وہاں نہ آنکھ ہوتی ہے نہ ہاتھ نہ پیر نہ دیگر اعضاء مگر جو نہی دورِ ترقیات شروع ہوتا ہے تو خلیات خود کو دوہرے بنانا شروع کردیتا ہے جس کی بدولت تمام اعضاء نمودار ہونے لگتے ہیں ۔ جتنا احساس کا مادّہ آپ کی انگلی میں ہے اتنا ہی احساس کا مادّہ آپ کی آنکھ میں بھی موجود ہے ۔ کیونکہ دونوں ایک خلیہ سے ہی تو لود ہوئے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں کہو تو انگلی دیکھ سکتی ہے

جس طرح آنکھ دیکھ سکتی ہے ۔ جتنی گہرائی سے آنکھ دیکھ سکتی ہے اتنی گہرائی سے جسم کا ہر خلیہ احساس کرسکتا ہے ۔
سوال : تصوف کو بڑھاپے میں سیکھنا چاہیے ؟
جواب : تصوف جینے کا ہنر سکھاتا ہے ۔ اور جینے کا ہنر جوانی میں چاہئے بڑھاپے میں سیکھ کر کیا کریں گے ۔
قول : ہر لفظ دوئی سے پیدا ہوتا ہے ۔
نکتہ : شعور کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک میں ہوں کا شعور دوسرا ہوں کا شعور ۔ جب تم پوری طرح سے مٹ جاؤ گے محظ ایک خالی صف ہوجاؤ گے ۔ تب بھی شعور باقی رہے گا پر میں فنا ہوجائے گا ۔ ' میں' کا احساس ہی آدمی کو ہمیشہ باہر کی اور ڈھکیلتا ہے جیسے '' میں'' جارہا ہوں ۔'' میں'' کھا رہا ہوں۔
قول : تغّیر کا نام ہی وقت ہے ۔ بدلا ہٹ کی تیزی ہی وقت کی رفتار ہے ۔
قول : حق ایک ہے پر جاننے والوں نے اسے الگ الگ ڈھنگ سے جانا ہے ۔
راز : راز کیا ہے ؟ نام اور انام کے بیچ میں ایک ہونا ہے ۔ اسی کا نام ہے راز ۔ جو کئی ہوتے ہوئے بھی جو ایک بنا رہتا ہے ۔ اسے ہی ہم راز کہتے ہیں ۔ راز کا مطلب ہوتا ہے جسے ہم جان بھی لیتے ہیں اور پھر بھی نہیں جان پاتے جسے ہم پہچان بھی لیتے ہیں پھر بھی وہ انجانا رہ جائے ۔ لاعلمی کے اوپر علم ہے اور علم کے اوپر راز ہے ۔ جاہل کو یہ گمان ہے کہ وہ نہیں جانتا اور عالم کو یہ گمان ہے کہ وہ جانتا ہے ۔ کسی کا قول ہے کہ جاہل تو اندھیرے میں بھٹکتا ہے پر عالم اس سے بڑے اندھیروں میں بھٹکتے رہتے ہیں ۔ جاہل اس لیے بھٹکتا ہے کہ وہ

نہیں جانتا اور عالم اس لیے بھٹکتا ہے کہ میں جانتا ہوں ۔ جس کی وجہ سے اس میں سے عاجزی ختم ہوجاتی ہے ۔ اور تکبّر مقام کر جاتا ہے ۔ راز جاننے کا نام نہیں بلکہ جاننے کے اوپر اٹھ جانا ہے ۔ راز کے معنی ہیں کہ جو اندھیرے میں ہے وہی اجالے میں ہے ۔ پیدائش و موت ایک ہے اسی کو جاننے کا نام راز ہے ۔ جو راز داں ہیں ۔ ان کا قول ہے کہ ''میں'' کو مٹاؤ کیونکہ جب تک میں ہوگا تب تک راز کو جاننے کا شوق و ذوق میں اتنا جوش نہ ہوگا۔ ''میں'' کے معنی ہیں '' میں'' جانتا ہوں مجھے سب پتہ ہے ۔ اور جیسے ہی میں کو فنا کرے گا فوراً راز کو جاننے کا جوش بڑھ جائے گا ۔ ایک ہے علم سے پہلے کا راز ۔ ایک ہے علم کے بعد کا راز ۔ ایک آنکھ والا راز ایک نا بینا راز ہے ۔
قول :سونے اور جاگنے میں صرف پلک کے کھلنے اور بند ہونے کا فرق ہے ۔
کثافت اور لطافت میں فرق :
جو شئے ہمیں حواس کے ذریعے یا حواس سے بنائے گئے آلہ جات کے ذریعے ہمیں معلوم ہو یا جسے ہم محسوس کرسکیں اسے کثافت کہیں گے ۔ اور جو بغیر حواس خمسہ کے ذریعے معلوم ہو اسے ہم لطافت کہیں گے ۔
''جس آدمی میں رازوں کی سمجھ آجاتی ہے وہ لطافت کا دروازہ کھول لیتا ہے۔''
اگر میں بغیر کان کے آپ کو سن سکوں یا بغیرآنکھ کے آپ کو دیکھ سکوں تو یہ لطافت ہے ۔
کرامت : کرامت وہ فعل جس کی وجہ سمجھ میں نہ آسکے کیونکہ ہر فعل کی

وئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے ۔ جیسے ایک آدمی بیمار ہو اور ڈاکٹر سے دوا لے اور ٹھیک ہوجائے ہم اس کو کرامت نہیں کہیں گے کیونکہ یہاں ٹھیک ہونے کی صاف وجہ معلوم ہورہی ہے ۔ مگر کوئی آدمی کسی بزرگ کے قدموں پر سر رکھے اور ٹھیک ہوجائے تو اسے ہم کرامت کہیں گے ۔ کیونکہ یہاں اس کے ٹھیک ہونے کی وجہ معلوم نہیں ہورہی ہے ۔ مگر اس میں بھی وجہ ہے ۔ ایک تو ایسی ہے جیسے بجلی آپ کے جسم میں داخل ہوکر آپ کو جھٹکا دیتی ہے یا جسمانی نظام کو کچھ دیر کے لیے سن کر دیتی ہے ٹھیک اسی طرح نیک آدمی کی جسمانی بجلی انسانی بیماری کو ٹھیک کردیتی ہے جسے آج ریکی کہتے ہیں ۔ حقیقی کرامت وہ ہے جہاں فاعل اور وجہ ایک ہوجائیں ۔ جہاں دو کی گنجائش نہ ہو۔
قول : جو خواہش سے بھرا ہے وہ ہی کہیں پہنچنا چاہتا ہے ۔
قول: نفسانیت سے بھرا ہوا من جہاں ہے وہاں کبھی نہیں ہوتا اور جہاں نہیں ہے وہاں سدا ڈولتا رہتا ہے ۔
قول : نفسانیت سے بھرا ہوا من راز سے واقف نہیں ہو پاتا صرف باہر ہی بھٹکتا رہتا ہے ۔ کبھی اندر داخل نہیں ہوپاتا ۔
قول : نفس ہمیشہ بدلاؤ پر جیتا ہے ۔
قول : سب سے بڑی خواہش کوئی خواہش نہ ہونا ۔
قول : انسان چھوٹی خواہش کو بڑی خواہش سے (Replace) بدل دیتا ہے ۔ یعنی چھوٹی خواہش کو اسی وقت چھوڑتا ہے جب اس کے سامنے کوئی بڑی خواہش ہو۔
نکتہ : انسان جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے یعنی اسی خواہشات کا جوڑ ۔

اگر انسان کی تمام خواہشات جھڑ جائیں تو انسان کیا ہوگا ۔ صرف ایک صفر ایک خلا ء مگر اسی صفر سے زندگی کا دروازہ کھلتا ہے ۔ آپ ایک مکان بناتے ہیں ۔ اس میں ایک درواز بناتے ہیں ۔ کبھی خیال کرکے دیکھو کہ دروازہ کیا ہے ۔ دروازہ ایک صفر ہے ۔ دروازے کا مطلب ہے جہاں سے داخل ہوجانا ہے جہاں کچھ بھی نہیں ہے ۔ کوئی دیوار سے داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ وہاں کچھ ہے ۔ صفر ہی کاملیت کا دروازہ ہے ۔
قول : جس شخص کو بدصورتی کا پتہ نہیں ہوتا اسے خوبصورتی کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔
قو ل: ہم اسی بات پر زور دیتے ہیں جہاں مقابل پہلے سے ہی پیدا ہوچکا ہے ۔
نکتہ : دوئی کے ختم ہوتے ہی ایک بھی خود بخود ختم ہوجاتا ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ دوئی کے مٹ جانے کے بعد ایک باقی رہ جائے گا مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ۔ دوئی کی ہی وجہ سے ایک دکھائی پڑ رہا تھا اگر ہمیں ایک کو بتانا ہے تو ہمیں ایک کے سامنے دو تین چار لکھنا ہوگا ورنہ ایک کا وجود ثابت نہیں ہوسکتا کوئی اسے لکیر کوئی کچھ سمجھے گا ۔ پہاڑ میں اونچائی اور نیچائی دونوں ہیں مگر جب ہم پہاڑ کی اونچائی کو ختم کردیں گے تو خود بخود نیچائی ختم ہوجائے گی کیونکہ اونچائی ہی نے نیچائی کو پیدا کیا تھا۔
مقامِ وصل میں سوچو تو اللہ ہے نہ بندہ ہے
فقط ایک نام کی ہے قید قطرہ ہے نہ دریا ہے
بندے کے مٹتے ہی خدا بھی مٹ جاتا ہے جب تک بندہ تھا تب تک

اللہ تھا ۔ جیسے قطرہ دریا میں مٹ جاتا ہے ۔ قطرہ قطرہ نہیں رہ جاتا بلکہ دریا ہوجاتا ہے ، اور جیسے ہی دریا قطرہ سے وصل کرتا ہے تو دریا دریا نہیں رہ جاتا بلکہ قطرہ ہوجاتا ہے ۔ جہاں قطرہ مٹا وہاں دریا خود بخود مٹ جاتا ہے پھر سوال اٹھتا ہے وصل کیوں ؟ تو ایک یہ معنی ہے کہ ایک قطرہ میں دریا کی کمی تھی دوسرا معنی ہے کہ دریا میں بھی ایک قطرہ کی کمی تھی اور جیسے دونوں ملے پھر وہی نہیں رہ گئے جس طرح قطرہ مٹ گیا اسی طرح دریا بھی مٹ گیا دونوں کے مٹ جانے کا نام ہی وصل ہے ۔ قطرے قطرے سے دریا بنا ہے ۔ اگر ہم یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ قطرہ چھوٹا دریا ہے اور دریا بڑا قطرہ ہے ۔
نکتہ : بیماری جسم کا حفاظتی خول ہے ۔ بیماری تندرستی کا ہی حصّہ ہے ۔ نظام زندگی کا انحصار ضد پر ہے ۔ ہر چیز اپنے مخالف سے ہی پہچانی جاتی ہے ۔ ہر چیز اپنے مخالف چیز کا خیال دیتی ہے ۔ زندگی موت کا خیال دیتی ہے ۔ وجود عدم کا ۔ اسی طرح عدم بھی وجود کا خیال دیتا ہے ۔ جس طرح زندگی موت کا خیال دیتی ہے تو موت بھی زندگی کا خیال دیتی ہے ۔ زندگی ہے تو موت ہے ۔ زندگی ہی موت کا دروازہ ہے ۔ جب بات سمجھ میں آجائے تو انسان نہ زندگی سے بھاگے گا نہ موت سے گھبرائے گا ۔ انسان دو میں سے ایک کو چنتا ہے ۔ انسان چاہتا ہے کہ تندرست رہے اور بیماری نہ رہے ۔ جوانی رہے پر بڑھاپا نہ رہے ۔ اچھائی رہے پر بُرائی نہ رہے ۔ جب انسان ایک کو چنتا ہے جس کی وجہ سے تناؤ آجاتا ہے ۔ ایک کو پکڑنے اور ایک کو چھوڑنے کے چکر میں کھینچاؤ آجاتا ہے ۔ کیونکہ ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے ۔ جیسے رات دن سے جڑا ہوا ہے یا تو انسان دونوں کو قبول کرلے یا دونوں کو چھوڑ دے

trp